Tuesday, 15 November 2022

جس سے دل مانوس تھا اچھا بھلا ملتا نہیں

 وردِ طلب


جس سے دل مانوس تھا اچھا بھلا ملتا نہیں

نازنیں تیری عماری کا پتہ ملتا نہیں

فاصلے سب بیچ کے

فاصلے سب بیچ کے

دو ہیں دنیائیں جو دیکھو 

پہلے آنکھیں کھول کے پھر میچ کے

اک طرف کالی گھٹا

اک طرف کالی گھٹا

اک طرف رقصاں شجر جھکڑ میں تھرّاتا ہوا

دور کوئی مست زلفِ شاخ لہراتی ہے 

ہاتھوں کو سِرا ملتا نہیں

نازنیں تیری عماری کا پتہ ملتا نہیں

نقش ہے یا ہے سحاب

نقش ہے یا ہے سحاب

دھول ہے یا روغنِ سطحِ دو باب

یہ گھنیرا خارزار

یہ گھنیرا خارزار

اس پہ چلیے پابرہنہ بار بار

راہرو کو گام بھر کا راستہ ملتا نہیں

نازنیں تیری عماری کا پتہ ملتا نہیں

یوں بھٹکتے جائیے

یوں بھٹکتے جائیے

پردۂ خالی پہ حیرانی سے تکتے جائیے

یہ نظارہ کیا ہوا

یہ نظارہ کیا ہوا

وہ ابھی کا آنکھ دیکھا نظم نقشہ کیا ہوا

طائروں کو انجمِ منزل نما ملتا نہیں

نازنیں تیری عماری کا پتہ ملتا نہیں

چیدہ چیدہ کچھ بتا

چیدہ چیدہ کچھ بتا

چلتے چلتے اے طلب کے راہ دیدہ کچھ بتا

کیا تعاقب کیا سراغ

کیا تعاقب کیا سراغ

کب ملے گا الجھنوں کی کاو کاوی سے فراغ

پانے والوں کو ملا کیا مجھ کو کیا ملتا نہیں

نازنیں تیری عماری کا پتہ ملتا نہیں


اسد فاطمی

No comments:

Post a Comment