Tuesday, 15 November 2022

دل میں آنکھیں رکھ لینا یا آنکھوں میں یہ دل رکھنا

 دل میں آنکھیں رکھ لینا، یا آنکھوں میں یہ دل رکھنا

جتنا بڑا سمندر ہو،۔ تم اتنا ہی ساحل رکھنا

خود ہی اک تصویر بنانا، شہرِ محبت کی، جس میں

رستے بھی دشوار بنانا، چلنا بھی مشکل رکھنا

رنگ بھروں میں، اس تصویرِ شہرِ محبت میں، اور تم

رات کی کالک کم نکلے تو اپنے لبوں کا تل رکھنا

جس کی ڈال پہ زرد نبولی میٹھی ہونے والی ہے

رستے میں اک پیڑ ملے گا، وہ اپنی منزل رکھنا

مجھ سے ملنے رات بگولے کمرے میں آ نکلے تھے

میں نے بھی پھر سوچ لیا اب خود کو کیا حائل رکھنا

بالوں میں اک پھول سجا کر، خوشبو کو پھیلا دینا

ایک طرف تنہائی رکھنا، ایک طرف محفل رکھنا

قرض پرانا کب ہوتا ہے، وقتِ ادائی آتا ہے

ظلم و ستم سہتے جانا اور نظروں میں قاتل رکھنا

ویسے تو میں آجاؤں گا، پھر بھی اگر کوئی بات ہوئی

میرے بھی کچھ شعر سنانا، مجھ کو بھی شامل رکھنا


کامران نفیس

1 comment: