Tuesday, 15 November 2022

میں اپنی آنکھوں کے کھارے دریا بجھا رہا ہوں

 لا تقنطو


میں اپنی آنکھوں کے کھارے دریا بجھا رہا ہوں

میں اپنی آنکھوں کو آج پتھر بنا رہا ہوں

خدا کی دھرتی کے لوگ اچھے نہیں رہے ہیں

عقیدتوں کی ہر ایک مسند پہ حیرتوں کے

سوال نامے بکھر گئے ہیں

یہ نوع انسان محترم ہے

وہ لاش دیکھو کہ 

جس کے سینے میں پھر صلیبیں گڑی ہوئی ہیں

نحیف چیخیں غِلافِ مرقد میں گم ہوئی ہیں

گُلِ دریدہ کے چاک کتبوں کے حرف بن کر ٹھہر گئے ہیں

یہ مضمحل سے شباب دیکھو

جو خط ہستی پہ ایک دن بھی نہ معتبر تھے

وہ بوڑھے دیکھو

خمیدہ ہو کر بھی سائے صحنوں میں بانٹتے ہیں

زمیں کے فرعون کو بھی دیکھو

رعونتوں کے تناؤ ان کے چٹان چہروں سے دِکھ رہے ہیں

خدائی کہسار تپ رہے ہیں

کہ نوع انسان محترم ہے

یہ ماہی گیروں کے پینتروں کی اسیر نسلیں

معاشرت کے کثیف پیکر

یہ بانجھ پن کے اسیر لہجے

یہ کھوکھلی بے زبان لذت

وہ قدغنیں ہیں کہ سائے چبھنے لگے ہیں اب تو

وہ دو رخی ہے کہ

پارسائی بھی مے کدوں سے ہی جھانکتی ہے

تمہاری یہ پرفریب بستی زماں کا جنگل فنا کرے گی

یہ سانپ، کیڑوں کی زہر پاشی

کوئی تو اس کا علاج ہو گا

ہزار ظلمت کے باالمقابل

کوئی تو جھلمل شعار ہو گا

خزاں رسیدہ سلگتے بن میں

تمہارے کُن کا سماج کب پُربہار ہو گا


عرفان شہود

No comments:

Post a Comment