لا تقنطو
میں اپنی آنکھوں کے کھارے دریا بجھا رہا ہوں
میں اپنی آنکھوں کو آج پتھر بنا رہا ہوں
خدا کی دھرتی کے لوگ اچھے نہیں رہے ہیں
عقیدتوں کی ہر ایک مسند پہ حیرتوں کے
سوال نامے بکھر گئے ہیں
یہ نوع انسان محترم ہے
وہ لاش دیکھو کہ
جس کے سینے میں پھر صلیبیں گڑی ہوئی ہیں
نحیف چیخیں غِلافِ مرقد میں گم ہوئی ہیں
گُلِ دریدہ کے چاک کتبوں کے حرف بن کر ٹھہر گئے ہیں
یہ مضمحل سے شباب دیکھو
جو خط ہستی پہ ایک دن بھی نہ معتبر تھے
وہ بوڑھے دیکھو
خمیدہ ہو کر بھی سائے صحنوں میں بانٹتے ہیں
زمیں کے فرعون کو بھی دیکھو
رعونتوں کے تناؤ ان کے چٹان چہروں سے دِکھ رہے ہیں
خدائی کہسار تپ رہے ہیں
کہ نوع انسان محترم ہے
یہ ماہی گیروں کے پینتروں کی اسیر نسلیں
معاشرت کے کثیف پیکر
یہ بانجھ پن کے اسیر لہجے
یہ کھوکھلی بے زبان لذت
وہ قدغنیں ہیں کہ سائے چبھنے لگے ہیں اب تو
وہ دو رخی ہے کہ
پارسائی بھی مے کدوں سے ہی جھانکتی ہے
تمہاری یہ پرفریب بستی زماں کا جنگل فنا کرے گی
یہ سانپ، کیڑوں کی زہر پاشی
کوئی تو اس کا علاج ہو گا
ہزار ظلمت کے باالمقابل
کوئی تو جھلمل شعار ہو گا
خزاں رسیدہ سلگتے بن میں
تمہارے کُن کا سماج کب پُربہار ہو گا
عرفان شہود
No comments:
Post a Comment