Sunday, 13 November 2022

سوچیے گرمئ گفتار کہاں سے آئی

 سوچیے گرمئ گفتار کہاں سے آئی

لب بہ لب خواہش اظہار کہاں سے آئی

کس حنا ہاتھ سے آنگن ہے معطر اتنا

وقت خوش ساعت بیدار کہاں سے آئی

ہاں یہ ممکن ہے نیا موڑ ہو پھولوں جیسا

پھر یہ پازیب کی جھنکار کہاں سے آئی

خون میں نشۂ اظہار کا خنجر پیوست

درمیاں چپ کی یہ تلوار کہاں سے آئی

ہم خرابے کے مسافر ہیں ہمارے دل میں

آرزوئے در و دیوار کہاں سے آئی

سوچتا ہوں کہ خوش انداز دلوں میں اے راز

شورش خوئے دل آزار کہاں سے آئی


راج نرائن راز

No comments:

Post a Comment