سوچیے گرمئ گفتار کہاں سے آئی
لب بہ لب خواہش اظہار کہاں سے آئی
کس حنا ہاتھ سے آنگن ہے معطر اتنا
وقت خوش ساعت بیدار کہاں سے آئی
ہاں یہ ممکن ہے نیا موڑ ہو پھولوں جیسا
پھر یہ پازیب کی جھنکار کہاں سے آئی
خون میں نشۂ اظہار کا خنجر پیوست
درمیاں چپ کی یہ تلوار کہاں سے آئی
ہم خرابے کے مسافر ہیں ہمارے دل میں
آرزوئے در و دیوار کہاں سے آئی
سوچتا ہوں کہ خوش انداز دلوں میں اے راز
شورش خوئے دل آزار کہاں سے آئی
راج نرائن راز
No comments:
Post a Comment