زرد پتے تھے ہمیں اور کیا کر جانا تھا
تیز آندھی تھی مقابل سو بکھر جانا تھا
وہ نہ تھا ترک تعلق پہ پشیمان تو پھر
تم کو بھی چاہیے یہ تھا کہ مکر جانا تھا
کیوں بھلا کچے مکانوں کا تمہیں آیا خیال
تم تو دریا تھے تمہیں تیز گزر جانا تھا
عشق میں سوچ سمجھ کر نہیں چلتے سائیں
جس طرف اس نے بلایا تھا ادھر جانا تھا
تجھ سے ہی ٹوٹا بھرم رشتوں کی مضبوطی کا
سر پہ الزام تِرے دیدۂ تر جانا تھا
خود کو جب کر ہی دیا تھا تِری آندھی کے سپرد
پھر یہ کیا جان کے کرتے کہ کدھر جانا تھا
کیا خبر تھی کہ یہاں تیری ضرورت ہو گی
ہم نے تو بس در و دیوار کو گھر جانا تھا
ضیا ضمیر
No comments:
Post a Comment