Sunday, 13 November 2022

زرد پتے تھے ہمیں اور کیا کر جانا تھا

 زرد پتے تھے ہمیں اور کیا کر جانا تھا 

تیز آندھی تھی مقابل سو بکھر جانا تھا 

وہ نہ تھا ترک تعلق پہ پشیمان تو پھر 

تم کو بھی چاہیے یہ تھا کہ مکر جانا تھا 

کیوں بھلا کچے مکانوں کا تمہیں آیا خیال 

تم تو دریا تھے تمہیں تیز گزر جانا تھا 

عشق میں سوچ سمجھ کر نہیں چلتے سائیں 

جس طرف اس نے بلایا تھا ادھر جانا تھا 

تجھ سے ہی ٹوٹا بھرم رشتوں کی مضبوطی کا 

سر پہ الزام تِرے دیدۂ تر جانا تھا 

خود کو جب کر ہی دیا تھا تِری آندھی کے سپرد 

پھر یہ کیا جان کے کرتے کہ کدھر جانا تھا 

کیا خبر تھی کہ یہاں تیری ضرورت ہو گی 

ہم نے تو بس در و دیوار کو گھر جانا تھا


ضیا ضمیر

No comments:

Post a Comment