Sunday, 13 November 2022

کیسے طوفان اس سفر میں ہیں

 کیسے طوفان اس سفر میں ہیں

جیسے کچھ حادثے نظر میں ہیں

میرے بھی دل میں راکھ اڑتی ہے

تیرے بھی خواب اس اثر میں ہیں

وہ گھنا پیڑ ہو کہ سایہ طلب

آخرش سب ہی چشمِ تر میں ہیں

پیاس سے دم مِرا بھی گھٹتا ہے

شب کے سناٹے بھی خبر میں ہیں

خواہش بے نوا ہے جب سے سوا

تیرے افسانے ہر نگر میں ہیں


نصرت زہرا

No comments:

Post a Comment