کیسے طوفان اس سفر میں ہیں
جیسے کچھ حادثے نظر میں ہیں
میرے بھی دل میں راکھ اڑتی ہے
تیرے بھی خواب اس اثر میں ہیں
وہ گھنا پیڑ ہو کہ سایہ طلب
آخرش سب ہی چشمِ تر میں ہیں
پیاس سے دم مِرا بھی گھٹتا ہے
شب کے سناٹے بھی خبر میں ہیں
خواہش بے نوا ہے جب سے سوا
تیرے افسانے ہر نگر میں ہیں
نصرت زہرا
No comments:
Post a Comment