Saturday, 12 November 2022

اب کے نہیں قصور ذرا سا ہوا کا تھا

 اب کے نہیں قصور ذرا سا ہوا کا تھا

جو بجھ گیا چراغ کسی ہمنوا کا تھا

بجلی سے قبل راکھ نشیمن وفا کا تھا

اس میں ضرور ہاتھ کسی آشنا کا تھا

کشتی نکل گئی جو تلاطم سے بارہا

اس میں کمال ماں کے دستِ دعا کا تھا

صحبت میں پھول کی جو ذرا دیر میں رہا

ہاتھوں کے ساتھ چاک گریباں وفا کا تھا

قاتل کو آج پھر سے ضمانت ہے مل گئی

سر جو چڑھا ہے دار پہ اک بے خطا کا تھا

ساحل پہ آ کے ڈوب گئی ناو بخت کی

اس میں کوئی قصور کہاں ناخدا کا تھا

شمس و قمر بھی خوب ہے عارف مگر کجا

کتنا حسین چہرہ مِرے دلربا کا تھا


جاوید عارف

No comments:

Post a Comment