اب کے نہیں قصور ذرا سا ہوا کا تھا
جو بجھ گیا چراغ کسی ہمنوا کا تھا
بجلی سے قبل راکھ نشیمن وفا کا تھا
اس میں ضرور ہاتھ کسی آشنا کا تھا
کشتی نکل گئی جو تلاطم سے بارہا
اس میں کمال ماں کے دستِ دعا کا تھا
صحبت میں پھول کی جو ذرا دیر میں رہا
ہاتھوں کے ساتھ چاک گریباں وفا کا تھا
قاتل کو آج پھر سے ضمانت ہے مل گئی
سر جو چڑھا ہے دار پہ اک بے خطا کا تھا
ساحل پہ آ کے ڈوب گئی ناو بخت کی
اس میں کوئی قصور کہاں ناخدا کا تھا
شمس و قمر بھی خوب ہے عارف مگر کجا
کتنا حسین چہرہ مِرے دلربا کا تھا
جاوید عارف
No comments:
Post a Comment