میں بے وقوف ہوں پھر بھی بنا رہا ہے مجھے
وہ میری بھوک پکڑ کر چلا رہا ہے مجھے
کئی گروہوں کا میرے خلاف ہے گٹھ جوڑ
اور ان کا سرغنہ نغمہ سنا رہا ہے مجھے
شکم کی آگ نے خالی توا جلا ڈالا
تُو کاغذوں میں ترقی دکھا رہا ہے مجھے
تجھے تو میں نے حفاظت کی نوکری دی تھی
تُو دشمنوں کے نشانے پہ لا رہا ہے مجھے
میں اس کو مورچے میں پیار دے کے آیا ہوں
وہ مورچے سے نکل کر ڈرا رہا ہے مجھے
میں اپنے بچوں کے سپنے کچل کے جیتا ہوں
کہیں سے بھی کہاں کچھ ہوش آ رہا ہے مجھے
تُو حکمراں کے لبادے میں کوئی بھیڑیا ہے
وہ بھیڑیا، کہ جو اندر سے کھا رہا ہے مجھے
جو تجھ سے پہلے تھا وہ بھی تو تُو ہی تھا فرحت
اور اب تُو اگلے کسی کو تھما رہا ہے مجھے
میں اب چلوں کہ مجھے دیر ہو رہی ہے بہت
تھا جس نے بھیجا وہ واپس بلا رہا ہے مجھے
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment