یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے
کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے
ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر
مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر
ابھی تو ایک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے
ہوا تھا غرق بحرِ عشق اس انداز سے کوئی
کہ نقشہ ڈوبنے کا دیدۂ ساحل میں باقی ہے
قضا سے کوئی یہ کہہ دے کہ مشتاقِ شہادت ہوں
ابھی اک مرنے والا کوچۂ قاتل میں باقی ہے
کہاں فرصت ہجومِ رنج و غم سے ہم جو یہ جانچیں
کہ نکلی کیا تمنا کیا تمنا دل میں باقی ہے
ابھی سے اپنا دل تھامے ہوئے کیوں لوگ بیٹھے ہیں
ابھی تو حشر اٹھنے کو تِری محفل میں باقی ہے
وہاں تھے جمع جتنے مرنے والے مر گئے وہ سب
قضا لے دے کے بس اب کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ابھی سے تُو نے قاتل میان میں تلوار کیوں رکھ لی
ابھی تو جان تھوڑی سی تن بسمل میں باقی ہے
بسمل الہ آبادی
سکھ دیو پرشاد
No comments:
Post a Comment