Saturday, 12 November 2022

یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے

 یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے

کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے

ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر

مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے

ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر

ابھی تو ایک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے

ہوا تھا غرق بحرِ عشق اس انداز سے کوئی

کہ نقشہ ڈوبنے کا دیدۂ‌ ساحل میں باقی ہے

قضا سے کوئی یہ کہہ دے کہ مشتاقِ شہادت ہوں

ابھی اک مرنے والا کوچۂ قاتل میں باقی ہے

کہاں فرصت ہجومِ رنج و غم سے ہم جو یہ جانچیں

کہ نکلی کیا تمنا کیا تمنا دل میں باقی ہے

ابھی سے اپنا دل تھامے ہوئے کیوں لوگ بیٹھے ہیں

ابھی تو حشر اٹھنے کو تِری محفل میں باقی ہے

وہاں تھے جمع جتنے مرنے والے مر گئے وہ سب

قضا لے دے کے بس اب کوچۂ قاتل میں باقی ہے

ابھی سے تُو نے قاتل میان میں تلوار کیوں رکھ لی

ابھی تو جان تھوڑی سی تن بسمل میں باقی ہے


بسمل الہ آبادی

سکھ دیو پرشاد

No comments:

Post a Comment