Thursday, 17 November 2022

جو سال آئے جنوں میں بدلے فسوں میں بدلے

جو سال آئے

جنوں میں بدلے فسوں میں بدلے

گزرتے یہ پل کہ خوں میں بدلے

کچھ ایک کے چاؤ چوں میں بدلے

تھے اہلِ دانش جو قید پائے

ورودھ کے سُر بڑے دبائے

نکل کے شاہیں گھروں سے آئے

منافرت میں منافقت میں

یہ سال گزرا وبا کی رُت میں

کچھ ایک کا بس منافعت میں

سفر میں لُٹنا گلے کٹانا

مہاجروں کا گھروں کو آنا

غریب کا اور غریب بننا

غریب بچوں کی پاٹھ شالا

کہاں وہ تھالی کہاں نوالا

کسے تھی چِنتا کہاں سنبھالا

ہوئی ہے سب بیچنے کی سازش

بڑے گھرانے بڑی نوازش

کسان، جنتا کہاں گزارش

زمین بیچی ضمیر بیچا

ہری رُتوں کا خمیر بیچا

یہ دھر دبوچا یہ دھیر بیچا

یقین ہو کل حسین ہو کل

جو سال آئے متین ہو کل

نہ سال تشنہ مشین ہو کل


مسعود بیگ تشنہ

No comments:

Post a Comment