جو سال آئے
جنوں میں بدلے فسوں میں بدلے
گزرتے یہ پل کہ خوں میں بدلے
کچھ ایک کے چاؤ چوں میں بدلے
تھے اہلِ دانش جو قید پائے
ورودھ کے سُر بڑے دبائے
نکل کے شاہیں گھروں سے آئے
منافرت میں منافقت میں
یہ سال گزرا وبا کی رُت میں
کچھ ایک کا بس منافعت میں
سفر میں لُٹنا گلے کٹانا
مہاجروں کا گھروں کو آنا
غریب کا اور غریب بننا
غریب بچوں کی پاٹھ شالا
کہاں وہ تھالی کہاں نوالا
کسے تھی چِنتا کہاں سنبھالا
ہوئی ہے سب بیچنے کی سازش
بڑے گھرانے بڑی نوازش
کسان، جنتا کہاں گزارش
زمین بیچی ضمیر بیچا
ہری رُتوں کا خمیر بیچا
یہ دھر دبوچا یہ دھیر بیچا
یقین ہو کل حسین ہو کل
جو سال آئے متین ہو کل
نہ سال تشنہ مشین ہو کل
مسعود بیگ تشنہ
No comments:
Post a Comment