Thursday 17 November 2022

یہ اور بات کہ رہبر نہ ہمسفر پھر بھی

 یہ اور بات، کہ رہبر نہ ہمسفر پھر بھی

چُنا ہے راستہ شبلی نے پُر خطر پھر بھی

یہ اور بات، زباں میں مِری نہ ہو تاثیر

کلام رب کا، کرے گا مگر اثر پھر بھی

یہ اور بات، لچک ہے ہماری فطرت میں

ملیں گے سخت اصولوں میں ہم مگر پھر بھی

یہ اور بات، حقائق کچھ اور کہتے ہیں

حقیقتوں سے گریزاں ہے وہ نظر پھر بھی

یہ اور بات، گھٹا جا رہا ہے دم میرا

حصارِ ذات سے ممکن نہیں مفر پھر بھی

یہ اور بات، گراں تھی نہ اہلِ محفل پر

طویل نظم کیا ہم نے مختصر پھر بھی

یہ اور بات، الگ ذائقے ہیں رشتوں کے

جُڑا ہے شبلی اخوت سے ہر بشر پھر بھی


احمد شبلی

No comments:

Post a Comment