Monday, 14 November 2022

گام دو گام سے بھی آگے تھا

 گام دو گام سے بھی آگے تھا

نشہ تو جام سے بھی آگے تھا

تھے مقیّد مکیں مکانوں میں

گھر در و بام سے بھی آگے تھا

ہجر میں لمحۂ وصال کا دکھ

فکرِ ایام سے بھی آگے تھا

طنز کے تیر تھے چُھپے اس میں

لہجہ دُشنام سے بھی آگے تھا

کوفۂ صبح کے ستائے ہوئے

اور سفر شام سے بھی آگے تھا

آ گیا ذات پر جو میری امین

حرف الزام سے بھی آگے تھا


امین اوڈیرائی

No comments:

Post a Comment