گام دو گام سے بھی آگے تھا
نشہ تو جام سے بھی آگے تھا
تھے مقیّد مکیں مکانوں میں
گھر در و بام سے بھی آگے تھا
ہجر میں لمحۂ وصال کا دکھ
فکرِ ایام سے بھی آگے تھا
طنز کے تیر تھے چُھپے اس میں
لہجہ دُشنام سے بھی آگے تھا
کوفۂ صبح کے ستائے ہوئے
اور سفر شام سے بھی آگے تھا
آ گیا ذات پر جو میری امین
حرف الزام سے بھی آگے تھا
امین اوڈیرائی
No comments:
Post a Comment