Thursday, 17 November 2022

ہوں شامل سب میں اور سب سے جدا ہوں

ہوں شامل سب میں اور سب سے جدا ہوں

میں خود یہ سوچتا رہتا ہوں کیا ہوں

حصارِ ذات سے باہر نکل کر

میں ہر صورت میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں

وہ مجھ سے دور بھی ہے پاس بھی ہے

کبھی میں اپنے دل میں دیکھتا ہوں

میں خود کچھ بھی نہیں ہوں یہ بھی سچ ہے

نوا وہ ہے مگر میں ہمنوا ہوں

کبھی میں اپنے عالم میں نہیں ہوں

کبھی راضی کبھی خود سے خفا ہوں

مجھے کب تک اس عالم میں رکھے گا

تِری کیا مصلحت ہے سوچتا ہوں

مجھے جلوت میں کیا کیا دیکھنا ہے

ابھی خلوت میں مصروف دعا ہوں

رضا! اک بندۂ عاجز ہوں میں تو

وہی لکھتا ہوں جو کچھ دیکھتا ہوں


رضا امروہوی

No comments:

Post a Comment