کوچہ ہے یادِ یار کا، پِھرتے ہیں دل بدست ہم
سجدہ گزارِ رہگزر، نشے میں اپنے مست ہم
غافل ہیں التفات سے، بے پروا اپنی ذات سے
کیسے وجود آشنا، کیسے خدا پرست ہم؟
اک دو قدم پہ یار ہے، بیڑہ ہمارا پار ہے
آنے تو دو نشیبِ جاں، بھر لیں گے ایک جست ہم
جاری زباں پہ ذکر ہے، کس کو گلے کی فکر ہے
نیزے پہ سر گواہ ہے، کھاتے نہیں شکست ہم
رنگیں ہیں تیغ و تاز سے، کب اٹھے جانماز سے
پیشِ خدا ہیں آج بھی رکھے ہوئے نشست ہم
آنکھیں ہیں، دل ہے، خون ہے، گریہ نہیں، جنون ہے
رقصاں بخطِ خاتمہ، مستِ مئے الست ہم
مٹی ہے، دَورِ چاک ہے، گرداں غبارِ خاک ہے
کچھ تو رسائی دے ہمیں تُو ہے بلند، پست ہم
عارف امام
No comments:
Post a Comment