Wednesday, 16 November 2022

آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں

 آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں

کھونے والے اب کیا پائے جاتے ہیں

اچھے اچھے لوگوں کی کیا پوچھتے ہو

یاد کیے جاتے ہیں، بھلائے جاتے ہیں

ہنس ہنس کر جو پھول کھلائے تھے تم نے

اس موسم میں سب مرجھائے جاتے ہیں

سورج جیسے جیسے ڈھلتا جاتا ہے

اس کی دیواروں تک سائے جاتے ہیں

رشتوں پر اک ایسا وقت بھی آتا ہے

سلجھا سلجھا کر الجھائے جاتے ہیں

پھر اس نے راہوں میں پھول بچھائے ہیں

ہم جیسے پھر ٹھوکر کھائے جاتے ہیں

اپنے دامن پر ہیں شکیل اپنے آنسو

لوگ مگر احسان جتائے جاتے ہیں


شکیل گوالیاری

No comments:

Post a Comment