قصہ اندھوں کی اک بستی کا
دیوتاؤں کی راجدھانی میں
کس نے قدم رکھا ہے؟
داسی یا کسی دیوی نے بہروپ بھرا ہے
جس کے قدموں کی بے باکی
بستی والوں پرگراں گزری ہے
داسیوں کے رکھوالے
حیرت سے گنگ دیکھ رہے ہیں
سوچ رہے ہیں کون ہے یہ
جو دیوتاؤں کے چرنوں میں ماتھا ٹیکنے کی بجائے
ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھی ہے
کس کے قدم ہیں؟
جو رسومات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
کس نے انہیں آزاد کر دیا ہے؟
ساری بستی چیخ رہی ہے
آزادی اور داسی کی
سزا دو پاپی ناری کو
اسے سُولی پر لٹکا دو
دیوتاؤں کا خوف کم نہ ہو
اسی لیے تو چور، لٹیرے اور منصف
سر جوڑے بیٹھے ہیں
اور پھر فیصلہ آ گیا
داسی کو پکڑ لاؤ
اور اس کے ناپاک پاؤں کو آگ میں جھونک دو
دیوتاؤں کی قہر آلود گرج پر کان دھرو
ان کی خودشنوی چاہیے تو سیاہ کار کی آنکھیں نکال کر
پہاڑ کی چوٹی پر رکھ آؤ
دیوتاؤں کے خونی پرندے انہیں اٹھا کرلے جائیں گے
فیصلہ سنا کر منصف نے دیوتاؤں کی فتح کا نقارہ بجایا
بستی میں جشن جاری ہے
وحشت کی تال پر بستی کے رکھوالے رقص کر رہے ہیں
دیوتاؤں کے غیظ کا الاؤ سرد ہو چکا ہے
جہالت کے جنگل میں روشنی بکھیرنے والی
اب ویرانے میں اپنی آنکھیں ڈھونڈ رہی ہے
میمونہ عباس خان
No comments:
Post a Comment