میں غمزدہ بچھڑ کے پریشان تم بھی ہو
دل کو مِرے اجاڑ کے ویران تم بھی ہو
میرا وجود ہو گیا جیسے کوئی کھنڈر
حالت بتا رہی ہے بیابان تم بھی ہو
رنج و الم کی دھوپ نے جُھلسا دیا ہمیں
دل میں ہمارے سائے کا ارمان تم بھی ہو
ہم کو گمان تک نہ تھا تم سے جدائی کا
کیا ہو گیا یہ سوچ کے حیران تم بھی ہو
میں بھی بہانے ڈھونڈتا رہتا ہوں دید کے
ملنے کی جستجو میں پریشان تم بھی ہو
کچھ غم ہیں روزگار کے کچھ زیست کے الم
دل میں انہیں کے ساتھ میں مہمان تم بھی ہو
ناکامیاں لکھیں تھیں مقدر میں زیست کے
میری شکتِ زیست کا سامان تم بھی ہو
میرا وجود جیسے چراغِ سحر کوئی
گرتی ہوئی حویلی کا دالان تم بھی ہو
چہروں پہ ہے شکست لکھا دونوں کے سراج
شرمندگی ہے اس کو پشیمان تم بھی ہو
سراج الدین گلاؤٹھوی
No comments:
Post a Comment