حجاب حسن میں یا حسن بے حجاب میں ہے
یہ روشنی کا سفر عکس ماہتاب میں ہے
یقیں گماں ہو تو منزل کی سمت نا معلوم
ابھی سفر کا ارادہ فسونِ خواب میں ہے
عذابِ جاں سے مجھ کس طرح نجات ملے
کہ میرا نام ابھی حرفِ احتساب میں ہے
ملے گا اجر کسی دن جزا کی صورت میں
ابھی سزا کا خسارہ مِرے حساب میں ہے
ہنوز درد کی لذت سے آشنا ہوں میں
سکون مجھ کو میسر جو اضطراب میں ہے
ہوا بھی اب ہے نگوں سارِ شاخِ گل پہ کہیں
ابھی تو موج بھی ساحل پہ نقش آب میں ہے
میں اپنے گھر میں ہوں لیکن یہ وہم ہے دل میں
مِرا وجود ابھی دشتِ بے سراب میں ہے
مجھے بھی دولت شعر و سخن نصیب ہوئی
عجیب حسن عطا اس کے انتخاب میں ہے
یہ قرض جاں کا صبا مجھ سے کب ادا ہو گا
ہنوز سلسلۂ روز و شب حساب میں ہے
نعیم صبا
No comments:
Post a Comment