Monday, 14 November 2022

بے چراغ گھوموں میں راستہ نہیں ملتا

 بے چراغ گھوموں میں راستہ نہیں ملتا

کوئی بھی تسلی کا آسرا نہیں ملتا

گفتگو نہ کر پائے حال ہی سمجھ جائے

آدمی کوئی ایسا دوسرا نہیں ملتا

منزلیں الگ ان کی لوگ بھی جدا مجھ سے

میں بچھڑ گیا جس سے قافلہ نہیں ملتا

ساتھ چلنے والوں یوں لوگ تو بہت سے ہیں

ہم نفس نہیں ملتا،۔ ہم نوا نہیں ملتا

زندگی کی گر ساری خواہشیں بھی پوری ہوں

بے کلی نہیں جاتی مدعا نہیں ملتا

دور جانے والا کوئی لوٹ کے بھی آ جائے

ربط وہ نہیں رہتا،۔ سلسلہ نہیں ملتا


فیصل محمود

No comments:

Post a Comment