بے چراغ گھوموں میں راستہ نہیں ملتا
کوئی بھی تسلی کا آسرا نہیں ملتا
گفتگو نہ کر پائے حال ہی سمجھ جائے
آدمی کوئی ایسا دوسرا نہیں ملتا
منزلیں الگ ان کی لوگ بھی جدا مجھ سے
میں بچھڑ گیا جس سے قافلہ نہیں ملتا
ساتھ چلنے والوں یوں لوگ تو بہت سے ہیں
ہم نفس نہیں ملتا،۔ ہم نوا نہیں ملتا
زندگی کی گر ساری خواہشیں بھی پوری ہوں
بے کلی نہیں جاتی مدعا نہیں ملتا
دور جانے والا کوئی لوٹ کے بھی آ جائے
ربط وہ نہیں رہتا،۔ سلسلہ نہیں ملتا
فیصل محمود
No comments:
Post a Comment