وہ تیری یاد کے لمحے تِرے خیال کے دن
علاج درد کے زخموں کے اندمال کے دن
وہ اک رچی بسی تہذیب اپنے پُرکھوں کی
وہ دو یا چار سہی تھے مگر مثال کے دن
مجھے تو یاد ہے اب تک وہ کیا زمانہ تھا
تِرے جواب کا موسم، مِرے سوال کے دن
ہر ایک پل وہ کبھی روٹھنا، کبھی مننا
ندامتوں کی وہ گھڑیاں وہ انفعال کے دن
میں کچھ بھی سن نہ سکی تھی وہ خوف تھا شبنم
اسے بھی ہوش بھلا کب تھا عرضِ حال کے دن
رفیعہ شبنم عابدی
No comments:
Post a Comment