کہنے کو یہاں جینے کا سامان بہت ہے
اک تو جو نہیں زندگی ویران بہت ہے
ملتا ہے سرِ راہ تو کتراتا ہے مجھ سے
اب اپنے کیے پہ وہ پشیمان بہت ہے
چہرے کے تأثر سے تو لگتا ہے کہ خوش ہے
گر روح میں جھانکو تو پریشان بہت ہے
پھینک آیا تھا وہ مجھ کو کسی اندھی گُپھا میں
منزل پہ مجھے پا کے وہ حیران بہت ہے
سیتا ہے اگر تُو تجھے پانا نہیں مشکل
تیرے لیے بس رام کا اک بان بہت ہے
اک حرف محبت ہی اثاثہ ہے ظفر کا
ارزاں جو زمانے میں مِری جان بہت ہے
رشید الظفر
No comments:
Post a Comment