Monday, 14 November 2022

مرے خیال میں جب بھی کبھی وہ آتے ہیں

 مِرے خیال میں جب بھی کبھی وہ آتے ہیں

چراغ دل میں امیدوں کا جگمگاتے ہیں

چمن کو دوستو! ایسے بھی ہم سجاتے ہیں

ہر ایک پھول کیا کانٹوں سے بھی نبھاتے ہیں

نظر کے جام وہ جب جب ہمیں پلاتے ہیں

خدا کے نام پہ پہلا سبو اٹھاتے ہیں

مِرے رقیب بھی اپنی خوشی بڑھانے کو

مِری غزل کو وہ گیتوں کو گنگناتے ہیں

نہیں ہے پیار محبت دلوں میں جب ان کے

ہوا میں کس لیے وہ فاختہ اڑاتے ہیں

بھروسہ کیسے کریں ان کی رہنمائی پر

ہماری قوم کے رہبر ہمیں ستاتے ہیں

ہماری ذات پہ تجھ کو ہی اعتبار نہیں

وگرنہ ہم تو زمانے کے غم اٹھاتے ہیں

ہنر یہ سیکھا ہے پھولوں سے ہم نے الفت کا

کہ زخم کھاتے ہیں اور پھر بھی مسکراتے ہیں

جو بھوک پیاس سے پہلے بہت تڑپتے ہیں

پھر انقلاب کا ڈنکا وہی بجاتے ہیں

سراج جن کو سنوارا ہے میں نے اب وہ لوگ

مِرا نصیب مجھے آئینہ دکھاتے ہیں


سراج الدین گلاؤٹھوی

No comments:

Post a Comment