روشنی کے معبدوں میں بیٹھی عورتیں
ہماری آنکھوں میں جہاں کبھی خواب اترتے تھے
اب وہاں کانٹوں کا بسیرا ہے
جن کی مُسلسل چُبھن اور رِستے لہو نے
ہمیں ہمارے غلط فیصلوں کی ہر پل سزا دی ہے
ہماری شیریں سخنی کا ایک زمانہ گواہ تھا
مگر اب زہر اُگلتے لفظوں سے ہماری زبانیں نیلی پڑ گئی ہیں
ہماری نیلی زبانیں گواہ ہیں
کہ ہم نے اپنی جانب پھینکے گئے
زہر کے ہر قطرے کو خود میں جذب کر رکھا ہے
ہم خدا پرستی کو اپنا دھرم سمجھنے والے
بھلا کیوں کسی اور کے آگے سر جھکاتے؟
ہمارے جسموں کے مالکوں کو گوارا نہیں تھا
کہ ان کی باندیاں اپنی سوچیں وضع کریں
سو ہمارے جسموں کو رواجوں کی زنجیروں میں جکڑ کر
سوچ پر پہرے ڈالنے کی سعی کی گئی
ہماری شفاف سوچیں اور مضبوط چالیں گواہ ہیں
کہ ہم نے اپنی سوچوں پر بٹھائی گئی روایتوں کی
ان دیکھی زنجیروں کو توڑ ڈالا
اور اپنے قدموں کو روشنی کی سمت موڑا
ہماری جدوجہد گواہ ہے
کہ اپنی اذیتوں سے طاقت نچوڑ کر
آنسووں کو مرہم بنا کر
زہر سے تریاق نکال کر
آہنی زنجیروں کو موم میں بدل کر
ہم نے اپنے خالی جسموں کو
ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بننے سے پہلے ہی بچا لیا
میمونہ عباس خان
No comments:
Post a Comment