تیرا اصرار نہ انکار تلک لے جاوے
جیت کو تیری کہیں ہار تلک لے جاوے
ہے کرشمہ یہ بھی اہلِ جنوں کا جو اپنی
بند وہ آنکھ کرے یار تلک لے جاوے
کچھ تو اسرار ہے اس عشق میں پنہاں جو یوں
سر کو در سے یہ اٹھا؛ دار تلک لے جاوے
ہے یہ خوشبو کا ہی جادو جو کرے ہے بے کل
بے خطر دست کو یوں خار تلک لے جاوے
ہاں بجُز تیرے نا کوئی مِرے ہمدم ایسا
میرے انکار کو اقرار تلک لے جاوے
تُو جو شامل نہیں ہوتا تو تھا دم کس میں یوں
وہ گریباں مِرا اغیار تلک لے جاوے
معتبر میں کبھی ٹھہروں جو نظر میں تیری
سر مِرا تُو کبھی دستار تلک لے جاوے
ارفع کنول
No comments:
Post a Comment