Tuesday 15 November 2022

تیرا اصرار نہ انکار تلک لے جاوے

 تیرا اصرار نہ انکار تلک لے جاوے

جیت کو تیری کہیں ہار تلک لے جاوے

ہے کرشمہ یہ بھی اہلِ جنوں کا جو اپنی

بند وہ آنکھ کرے یار تلک لے جاوے

کچھ تو اسرار ہے اس عشق میں پنہاں جو یوں

سر کو در سے یہ اٹھا؛ دار تلک لے جاوے

ہے یہ خوشبو کا ہی جادو جو کرے ہے بے کل

بے خطر دست کو یوں خار تلک لے جاوے

ہاں بجُز تیرے نا کوئی مِرے ہمدم ایسا

میرے انکار کو اقرار تلک لے جاوے

تُو جو شامل نہیں ہوتا تو تھا دم کس میں یوں

وہ گریباں مِرا اغیار تلک لے جاوے

معتبر میں کبھی ٹھہروں جو نظر میں تیری

سر مِرا تُو کبھی دستار تلک لے جاوے


ارفع کنول

No comments:

Post a Comment