Sunday, 13 November 2022

گزرے چودہ سو برس نقش و نشاں محفوظ ہے

 محسن انسانیت


گزرے چودہ سو برس، نقش و نشاں محفوظ ہے

ذہن امکاں میں، حرا کی داستاں محفوظ ہے

جس پہ لکھیں، منشئ لاہوت نے آیاتِ نور

تیرے سینے میں، وہ لوحِ زر فشاں محفوظ ہے

تیری تعلیمات سے، انسانیت ہے با ثمر

مدرسے میں تیرے، حرفِ جاوداں محفوظ ہے

تیرا دامن، خیمۂ پروازِ بالِ جبرئیل

تیرے بربط میں، نوائے قدسیاں محفوظ ہے

اک سند اس کی ہے، تیری حکمتِ آفاق گیر

حرمتِ ایمان و قرآن و اذاں، محفوظ ہے

لوحہ لوحہ، نقش پردازئ یا قوت و گہر

صفحہ صفحہ، آب و تابِ پرنیاں محفوظ ہے

بوٹا بوٹا ، تکمۂ بندِ قبائے حوریاں

پتا پتا، دفترِ روحانیاں محفوظ ہے

حسن کا معیار ہے تو، عشق کی تہذیب تو 

تجھ سے اس دنیا میں، سر دلبراں محفوظ ہے

سینۂ ظلمات میں پیوست ہیں جس کے خدنگ 

تیرے ہاتھوں میں وہ سورج کی کماں محفوظ ہے

تجھ سے روشن ہے، نگارستانِ عطر و گل تمام

عرش و امکاں، گنج زارِ کہکشاں محفوظ ہے

تھی زوالِ شب کا اک اعلان، آوازِ بلال

سازِ وحدت میں، وہ آہنگِ تپاں محفوظ ہے

پاؤں کے نیچے، زمیں ہے فرشِ دیبا و حریر

سر کے اوپر، ماہتابی آسماں محفوظ ہے

عائشہ کے حجلۂ نوریں میں، مثلِ عکسِ ماہ

تیرے تسبیح و تہجد کا سماں محفوظ ہے

میزبانی کی جہاں، خود حق تعالیٰ نے تِری

وہ مکاں، اب تک بہ نامِ لا مکاں محفوظ ہے

ہیں خریداروں کی صف میں، حور و افرشتہ جہاں

شہرِ ہجرت میں، وہ ہیرے کی دکاں محفوظ ہے

یہ نبوت کا کرشمہ، یہ بصیرت، یہ شعور

دین، بے اندیشۂ سود و زیاں محفوظ ہے

تُو شفیع المذنبیںﷺ، تُو رحمتہ اللعالمینﷺ

تیرے دم سے، میری سعئ رائیگاں محفوظ ہے

گو ، بہت دشوار ہے، کالے سمندر کا سفر

تیری برکت سے، سفینہ، بادباں محفوظ ہے

ہوں عجم میں، تیری نسبت سے، نشانِ صلح و خیر

میں اگر محفوظ ہوں، سارا جہاں محفوظ ہے

"ہر طرف ہے، معرکہ سامانیِ "بدر و حنین

اس ہوا میں، کب بساطِ جسم و جاں محفوظ ہے

باغبانِ گلبنِ کونین، تیرے لطف سے

شاخِ رحمت پر، فضا کا آشیاں محفوظ ہے


فضا ابن فیضی

No comments:

Post a Comment