کھلی فضا میں
مری آوارہ گردی کا زمانہ تھا
تمہارے دیدۂ بے خواب کا موسم
مِرے عزم پریشاں کا زمانہ تھا
تمہارے جذبئہ بے تاب کا موسم
مِری ندرت پسندی کا زمانہ تھا
تمہاری خواہش نایاب کا موسم
نہ میں نے مجلسی تہذیب دیکھی تھی
نہ تم نے خوانگی آداب کا موسم
یہ قصے ایسے پارینہ نظر آئے
کہ ہم اک نسل دیرینہ نظر آئے
اندھیرے غار میں ہم کب تلک رہتے
جہاں چہرہ نہ آئینہ نظر آئے
کھلے میدان ہی کو فوقیت دے دی
جہاں وسعت کا تخمینہ نظر آئے
اترنے کی کوئی سیڑھی نہیں پائیں
چڑھائی کا کوئی زینہ نظر آئے
کہاں تک چوستے ہم زہر دوری کا
کہاں تک چاٹتے تم زخم تنہائی
کسے کب تک سناتے شکوۂ جاں
کسے کب تک دکھاتے داغ رسوائی
سر راہ اور کب تک بیچتے پھرتے
پزیرائی کے بدلے میں پزیرآئی
چلو قصہ یہی پر ختم کر ڈالیں
کہ ہر ذی روح کی ہے اپنی دار آئی
نوشاد نوری
No comments:
Post a Comment