تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی
ہم کو بھی اب عدو سے عداوت نہیں رہی
ہر اک ادا پہ مرنے کی عادت نہیں رہی
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی
مضمون مدعا ابھی دل میں ہی تھا مِرے
کہتے ہیں اب تو تاب سماعت نہیں رہی
واں ہے وہی وفور عتاب و جفا و قہر
یاں ناز بھی اٹھانے کی طاقت نہیں رہی
بے شک نقاب رخ سے اٹھایا کسی نے آج
ظلمت کدہ میں میرے جو ظلمت نہیں رہی
مشتاق تیرے عشق کی ہے دھوم آج کل
اب قیس و کوہکن کی وہ شہرت نہیں رہی
مشتاق دہلوی
منشی بہاری لال
No comments:
Post a Comment