Sunday, 13 November 2022

تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی

 تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی

ہم کو بھی اب عدو سے عداوت نہیں رہی

ہر اک ادا پہ مرنے کی عادت نہیں رہی

وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی

مضمون مدعا ابھی دل میں ہی تھا مِرے

کہتے ہیں اب تو تاب سماعت نہیں رہی

واں ہے وہی وفور عتاب و جفا و قہر

یاں ناز بھی اٹھانے کی طاقت نہیں رہی

بے شک نقاب رخ سے اٹھایا کسی نے آج

ظلمت کدہ میں میرے جو ظلمت نہیں رہی

مشتاق تیرے عشق کی ہے دھوم آج کل

اب قیس و کوہکن کی وہ شہرت نہیں رہی


مشتاق دہلوی

منشی بہاری لال 

No comments:

Post a Comment