ہم ٹھہرنے کے نہیں عمر رواں رکھتے ہیں
وہ زمیں گھومتی ہے پاؤں جہاں رکھتے ہیں
دیکھتے سب ہیں مگر بند زباں رکھتے ہیں
اس طرح شہر میں ہم امن و اماں رکھتے ہیں
دل لرزتا ہے تو ڈرتے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائے
شاخ پر ایک ہی تو برگ خزاں رکھتے ہیں
ڈھونڈ لیتا ہے ہر ایک شخص ہمیں ہم شاید
اپنے ہونے کا کہیں کوئی نشاں رکھتے ہیں
کیوں نہیں خانہ بدوشوں کی طرح جی لیتے
رہن رکھنے کے لیے ہم بھی مکاں رکھتے ہیں
بھول جا پڑھ کے پرانوں کی پرانی باتیں
اب وہ سرمایہ نئے لوگ کہاں رکھتے ہیں
عشق کی ابتداء اور انتہا ہم سے پوچھو
پھول کو چوم کے کانٹوں پہ زباں رکھتے ہیں
شکیل گوالیاری
No comments:
Post a Comment