Sunday, 13 November 2022

ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں

 ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں

کتنے حسیں تھے شام و سحر اس دیار میں

وہ باغ وہ بہار وہ دریا وہ سبزہ زار

نشوں سے کھیلتی تھی نظر اس دیار میں

آسان تھا سفر کہ ہر اک راہگزر پر

ملتے تھے سایہ دار شجر اس دیار میں

ہر چند تھی وہاں بھی خزاں کی اداس دھوپ

دل پر نہیں تھا غم کا اثر اس دیار میں

محسوس ہو رہا تھا ستارے ہیں گرد راہ

ہم تھے ہزار خاک بسر اس دیار میں

جالب یہاں تو بات گریباں تک آ گئی

رکھتے تھے صرف چاک جگر اس دیار میں


حبیب جالب

No comments:

Post a Comment