طلسمِ سومنات
عالمِ سوز و ساز میں کہنہ ہے بزمِ کائنات
دیر و حرم ہیں آج کل بت کدۂ تصورات
برقِ جمال نے دیا ہنس کے ثبوتِ زندگی
ابرِ بہار نے پڑھا رو کے صحیفۂ حیات
صبحِ ازل میں تیرا نور شامِ ابد میں تیری آب
عشق حضور و اضطراب حسن فقط تجلیات
سدرہ ہے تیرا آشیاں جست تری فلک بدوش
مرغِ بلند بال تو تیری نظر میں شش جہات
توڑ بتانِ آذری پیروئ خلیل کر
آتے رہے ہیں انقلاب ہوتے رہے ہیں حادثات
جلوہ گہِ حجاز میں حسنِ ایاز ہی نہ دیکھ
دیکھ جلالِ غزنوی توڑ طلسمِ سومنات
تیرے کرم سے بے گماں دونوں جہاں ہیں مستفیض
میں ہوں جمال کا کمال مبدۂ فیض تیری ذات
بن مرے تو ہے نا تمام میں ہوں ترے بغیر خام
تو ہے جو حسنِ عینِ ذات میں بھی ہوں جلوۂ صفات
شانِ سکندری عیاں،۔ عزمِ قلندری نہاں
راز بہ راز ہیں ثمر قلب و جگر کی واردات
عبدالکریم ثمر
No comments:
Post a Comment