ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہونگے کئی بے جاں ہونگے
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہونگے
فلسِ ماہی کے گل شمع شبستاں ہونگے
تابِ نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
تُو کہاں جائے گی، کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہونگے
ناصحا! دل میں تُو اتنا تو سمجھ اپنے، کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہونگے
کر کے زخمی مجھے نادم ہوں، یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہونگے بھی تو بے وقت پشیماں ہونگے
ایک ہم ہیں، کہ ہوئے ایسے پشیمان، کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہونگے
ہم نکالیں گے سُن اے موجِ ہوا، بل تیرا
اُس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہونگے
صبر یارب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
چارہ فرما بھی کبھی قیدیِ زنداں ہونگے؟
منتِ حضرتِ عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہونگے؟
تیرے دل تفتہ کی تربت پہ عدو جھوٹا ہے
گُل نہ ہونگے شرر آتشِ سوزاں ہونگے
غور سے دیکھتے ہیں طوف کو آہوئے حرم
کیا کہیں اس کے سگِ کوچہ کے قرباں ہونگے
داغ دل نکلیں گے تُربت سے مری جوں لالہ
یہ وہ اَخگر نہیں جو خاک میں پنہاں ہونگے
چاک پردہ سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں
ایک میں کی کہ سبھی چاکِ گریباں ہونگے
(ق)
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پاؤں وہی خارِ مغیلاں ہونگے
سنگ اور ہاتھ وہی وہ ہی سر و داغِ جنوں
وہ ہی ہم ہونگے، وہی دشت و بیاباں ہونگے
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے
مومن خان مومن
No comments:
Post a Comment