Wednesday, 5 December 2012

بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا؟

بِکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا؟
میرے معبود! آخر کب تماشا ختم ہو گا؟
چراغِ حجرۂ درویش کی بُجھتی ہوئی لَو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ اُلجھی ہے، کہ اُلجھائی گئی ہے؟
یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
یہ سب کٹھ پُتلیاں رقصاں رہینگی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے، سب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
دلِ ما مطمئن! ایسا بھی کیا مایوس رہنا؟
جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment