اب اے میرے احساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اُسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تُم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گِرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا
جب وقت کی مُرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو
تُم میرا بدن اوڑھ کے پھرتے رہو لیکن
ممکن ہو تو اِک دن میرا چہرہ مجھے دینا
چُھو جائے ہوا جس سے تو خُوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اِک زخم تو ایسا مجھے دینا
شب بھر کی مسافت ہے گواہی کی طلبگار
اے صبحِ سفر! اپنا ستارہ مجھے دینا
اِک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جاں میں
اِک رُوح کی آواز کہ” رستہ مجھے دینا”
اِک تازہ غزل اِذنِ سخن مانگ رہی ہے
تُم اپنا مہکتاہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مُصیبت میں تھا محسنؔ
رہ رہ کے مگر اُاس کا دلاسہ مجھے دینا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment