خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے، مرے نام آتے ہیں
تابِ نظارہ کسے دیکھے جو ان کے جلوے
بجلیاں کوندتی ہیں، جب لبِ بام آتے ہیں
تو سہی حشر میں تجھ سے جو نہ یہ کہوا دوں
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
وہ ڈرا ہوں کہ سمجھتا ہوں یہ دھوکا تو نہ ہو
اب وہاں سے جو محبت کے پیام آتے ہیں
صبر کرتا ہے کبھی اور تڑپتا ہے کبھی
دلِ ناکام کو اپنے یہی کام آتے ہیں
نہ کسی شخص کی عزت نہ کسی کی توقیر
عاشق آتے ہیں تمہارے، کہ غلام آتے ہیں
رسمِ تحریر بھی مٹ جائے، یہی مطلب ہے
اُن کے خط میں مجھے غیروں کے سلام آتے ہیں
وصل کی رات، گزر جائے نہ بے لطفی میں
کہ مجھے نیند کے جھونکے سرِ شام آتے ہیں
گریہ ہو، نالہ ہو، حسرت ہو کہ ارمانِ وصال
آنے والی تِری فرقت میں مدام آتے ہیں
داغؔ کی طرح سے گُل ہوتے ہیں صدقے قربان
بہرِ گُل گشتِ چمن میں جو نظام آتے ہیں
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment