Monday, 10 December 2012

ہم کہ منزل کا تصور نہ نظر میں رکھتے

ہم کہ منزل کا تصوّر نہ نظر میں رکھتے
یہ تو ہوتا کہ تِرا ساتھ سفر میں رکھتے
ہم اسیرانِ جنوں اپنی رہائی کے لیے
عزم پرواز کہاں جنبش پر میں رکھتے
ابرِ گِریہ سے تھی خود چاندنی افسردہ جمال
عکسِ مہتاب کو کیا روزن و در میں رکھتے
یا تو ہم چادرِ عزم اوڑھ کے چلتے گھر سے
یا کوئی سایۂ دیوار نظر میں رکھتے
ایک سودائے محبت کے سوا ہم خالدؔ
اور کیا سلسلۂ شام و سحر میں رکھتے

خالد علیم

No comments:

Post a Comment