وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے
بچھڑ نہ جائے کہیں پھر اداس کر کے مجھے
جہاں نہ تو نہ تیری یاد کے قدم ہوں گے
ڈرا رہے ہیں وہی مرحلے سفر کے مجھے
ہوائے دشت مجھے اب تو اجنبی نہ سمجھ
یہ چند اشک بھی تیرے ہیں شامِ غم، لیکن
اجالنے ہیں ابھی خال و خد سحر کے مجھے
دلِ تباہ، ترے غم کو ٹالنے کے لئے
سنا رہا ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
قبائے زخم، بدن پر سجا کے نکلا ہوں
وہ اب ملا بھی تو دیکھے گا آنکھ بھر کر مجھے
کچھ اس لئے بھی میں اس سے بچھڑ گیا محسنؔ
وہ دور دور سے دیکھے ٹھہر ٹھہر کے مجھے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment