Monday, 17 December 2012

وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے

وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے
بچھڑ نہ جائے کہیں پھر اداس کر کے مجھے
جہاں نہ تو نہ تیری یاد کے قدم ہوں گے
ڈرا رہے ہیں وہی مرحلے سفر کے مجھے
ہوائے دشت مجھے اب تو اجنبی نہ سمجھ
کہ اب تو بھول گئے راستے بھی گھر کے مجھے
یہ چند اشک بھی تیرے ہیں شامِ غم، لیکن
اجالنے ہیں ابھی خال و خد سحر کے مجھے
دلِ تباہ، ترے غم کو ٹالنے کے لئے
سنا رہا ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
قبائے زخم، بدن پر سجا کے نکلا ہوں
وہ اب ملا بھی تو دیکھے گا آنکھ بھر کر مجھے
کچھ اس لئے بھی میں اس سے بچھڑ گیا محسنؔ
وہ دور دور سے دیکھے ٹھہر ٹھہر کے مجھے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment