Friday, 14 December 2012

بدن میں جب تک کہ دل ہے سالم تری محبت نہاں رہے گی

بدن میں جب تک کہ دل ہے سالم، تری محبت نہاں رہے گی
یہی تو مرکز ہے، یہ نہ ہو گا، تو پھر محبت کہاں رہے گی
بہت سے تنکے چنے تھے میں نے، نہ مجھ سے صیّاد تُو خفا ہو
قفس میں گر مر بھی جاؤں گا میں،، نظر سوئے آشیاں رہے گی
ابھی سے ویرانہ پن عیاں ہے، ابھی سے وحشت برس رہی ہے
ابھی تو سنتا ہوں کچھ دنوں تک بہار اے آشیاں رہے گی
جو اُن کی مرضی، وہ اپنی مرضی ، یہی اگر روح نے سمجھا
ہمیشہ ہم کو ستائے گا دل، ہمیشہ نوبت بجاں رہے گی
گلوں نے خاروں کے چھیڑنے پر سوا خموشی کے دم نہ مارا
شریف الجھیں اگر کسی سے تو پھر شرافت کہاں رہے گی
ہزار کھچ کر جدا ہو مجھ سے، ہزار دوری ہو میرے تیرے
جو اِک کشش حسن و عشق میں ہے، مرے ترے درمیاں رہے گی
وہ چاند سا منہ وہ کالی ناگی، زمانہ کہتا ہے جس کو گیسو
جو چھیڑتا ہے تو سن لے ناصح، رہے گی یاد اس کی ہاں رہے گی
غمِ جدائی کے تذکرے میں بیان اس پردہ پوش کا کیا
غضب تو یہ ہے کہ اب ہمیشہ خجل دعا سے زباں رہے گی
اجل سلا دے گی سب کو آخر کسی بہانے تھپک تھپک کر
نہ ہم رہیں گے، نہ تم رہو گے، نہ شادؔ یہ داستاں رہے گی

 شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment