یُوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خُود بھی
وہ مسافر کہ جو منزل تھے، بجائے خُود بھی
کتنے غم تھے کہ زمانے سے چھپا رکھتے تھے
اس طرح سے کہ ہمیں یاد نہ آئے خُود بھی
ایسا ظالم ہے کہ گر ذکر میں اُسکے کوئی ظلم
لطف تو جب ہے تعلّق کا کہ وہ سحر جمال
کبھی کھینچے، کبھی کھنچتا چلا آئے خُود بھی
ایسا ساقی ہو تو پھر دیکھئے رنگِ محفل
سب کو مدہوش کرے ہوش سے جائے خُود بھی
یار سے ہم کو تغافل کا گِلہ کیوں ہو کہ ہم
بارہا محفلِ جاناں سے اُٹھ آئے خُود بھی
احمد فراز
No comments:
Post a Comment