Thursday, 13 December 2012

ملے کیا کوئی اس پردہ نشیں سے

ملے کیا کوئی اُس پردہ نشیں سے
چھپائے منہ جو صورت آفریں سے
مِرے لاشے پر اُس نے مُسکرا کر
ملیں آنکھیں عدو کی آستیں سے 
اثر تک دسترس کیوں کر ہو یارب
دعا نے ہاتھ باندھے ہیں یہیں سے
اُنہوں نے دل لیا ہے، مفت وہ بھی
بڑی حجّت سے، نفرت سے، نہیں سے
بنایا تجھ کو اور ایسا بنایا
کہے کیا کوئی صورت آفریں سے
تمہیں بے داد گر، اللہ کی شان
جفا کی داد میں چاہوں تمہیں سے
گئے ہیں، اور یہ کہتے گئے ہیں
بہل جاؤ گے اپنے ہم نشیں سے 
قیامت کا ہے وعدہ اُس پہ انکار
کلیجا پک گیا تیری نہیں سے 
عدو کی بات آیت جانتے ہو
خدا محفوظ رکھے اس یقیں سے 
مِری بربادیوں کی مشورت کو
فلک جھُک جھُک کے ملتا ہے زمیں سے
لگا دو تیر بھی انکار کے ساتھ
چلے گا کام کیا خالی نہیں سے 
ڈھلا سارا بدن سانچے میں گویا
ذرا اترا نہیں ظالم کہیں سے
ہمارے سامنے شکوہ عدو کا
ہماری گھات اے ظالم کہیں سے
بتاؤں نام اے درباں! تجھے کیا
یہ کہہ دے کوئی آیا ہے کہیں سے
مِرا احمدؐ ملے محشر میں مجھ کو
کروں گا عرض رب العالمیں سے 
کبھی دیکھا ہے اتنا داغؔ کو خوش
چلے آتے ہیں یہ حضرت وہیں سے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment