شہر میں جب غُنچہ دہنی، گُل پیرہنی، مقبول ہوئی
زُہرہ جبینوں، ماہ وشوں کو بے مہری معمول ہوئی
دلزدگاں کی بات ہی کیا ہے، دلزدگاں کی بات نہ کر
رات کا قصّہ ختم ہوا جب ان کی حکایت طول ہوئی
ہجر کی رُت سوغات بنی، ہم سوختگاں کی بات بنی
جلتے جلتے جل گئے اتنا، راکھ بھی آخر دھول ہوئی
ہم تو سیدھے سادھے لوگ ہیں لیکن دُنیا والوں سے
تیرا میرا عشق روایت کرنے میں کچھ بھول ہوئی
یہ تو خیر ہِمیں چپ رہتے ہیں، ورنہ اکثر خالدؔ
ذرا ذرا سی بات پہ بھی رنجش اُس کا معمول ہوئی
زُہرہ جبینوں، ماہ وشوں کو بے مہری معمول ہوئی
دلزدگاں کی بات ہی کیا ہے، دلزدگاں کی بات نہ کر
رات کا قصّہ ختم ہوا جب ان کی حکایت طول ہوئی
ہجر کی رُت سوغات بنی، ہم سوختگاں کی بات بنی
جلتے جلتے جل گئے اتنا، راکھ بھی آخر دھول ہوئی
ہم تو سیدھے سادھے لوگ ہیں لیکن دُنیا والوں سے
تیرا میرا عشق روایت کرنے میں کچھ بھول ہوئی
یہ تو خیر ہِمیں چپ رہتے ہیں، ورنہ اکثر خالدؔ
ذرا ذرا سی بات پہ بھی رنجش اُس کا معمول ہوئی
خالد علیم
No comments:
Post a Comment