نہ آیا نامہ بر اب تک، گیا تھا کہہ کے اب آیا
الٰہی کیا ستم ٹُوٹا، خدایا کیا غضب آیا
رہا مقتل میں بھی محروم، آب تیغِ قاتل سے
یہ ناکامی کہ میں دریا پہ جا کر، تشنہ لب آیا
غضب ہے جن پہ دل آئے، کہیں انجان بن کر وہ
شروعِ عشق میں گستاخ تھے، اب ہیں خوشامد کو
سلیقہ بات کرنے کا نہ جب آیا، نہ اب آیا
نوشتہ میرا بے معنی، تو دل بے مدعا میرا
مگر اس عالمِ اسباب میں، میں بے سبب آیا
بسر کیونکر کریں گے خلد میں ہم واعظِ ناداں
ہمارے جدِ امجد کو نہ واں رہنے کا ڈھب آیا
وہ ارماں حسرتیں جس کی، اگر نکلا تو کب نکلا؟
وہ جلوہ خواہشیں جس کی، نظر آیا تو کب آیا؟
ابھی اپنی جفا کو کھیل ہی سمجھا ہے تُو ظالم
کہ جینے پر نہ آیا، میرے مرنے پر عجب آیا
گیا جب داغؔ مقتل میں، کہا خُوش ہو کے قاتل نے
مِرا آفت نصیب آیا، مِرا ایذا طلب آیا
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment