Friday, 14 December 2012

اس ڈھب سے کیا کیجے ملاقات کہیں اور

اِس ڈھب سے کِیا کیجے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے، رہو رات کہیں اور
کیا بات کوئی اس بتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اِشارات کہیں اور
اس ابر میں پاؤں مَیں کہاں دخترِ رز کو
رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور
جس رنگ مِری چشم سے برسے ہے بڑا خوں
اس شکل سے دیکھی نہیں برسات کہیں اور
گھر اس کو بلا، نذر کیا دل تو وہ جرأتؔ
بولا، کہ یہ بس کیجے مدارات کہیں اور

قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment