منزلِ دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے؟
جس سے پوچھو وہی کہتا ہے، یہاں سے آگے
اہلِ دل کرتے رہے، اہلِ ہَوس سے بحثیں
بات بڑھتی ہی نہیں سود و زیاں سے آگے
اب جو دیکھا تو کئی آبلہ پا بیٹھے ہیں
ہم نے اُس حد سے کِیا اپنے سفر کا آغاز
پَر فرشتوں کے بھی جلتے ہیں جہاں سے آگے
کیسے بتلائیں کہ نیرنگِ زمانہ کیا ہے؟
کس کو دُنیا نظر آتی ہے یہاں سے آگے
نہیں ایسا بھی کہ جب چاہا غزل کہہ ڈالی
شعر کی بات ہے کچھ طبعِ رواں سے آگے
اپنے حصّے کی پِلا دیتے ہیں اوروں کو فرازؔ
کب یہ دستور تھا ہم تشنہ لباں سے آگے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment