Thursday, 13 December 2012

اسیر جسم ہوں معیاد قید لا معلوم

اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
ہے اصل میں مری مٹی کہاں کی کیا معلوم
سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستہ معلوم
دعا کروں نہ کروں سوچ ہے یہی کہ تجھے
دعا سے پہلے مرے دل کا مُدّعا معلوم
سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم
کچھ اپنے پاؤں کی ہمت بھی چاہئے اے پیر
یہی نہیں تو مددگارئ عصا معلوم
طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مُدعا معلوم

 شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment