خوابیدگی، درد کی محرم تو نہیں ہے
یہ شب ہے، ترا کاکُلِ پُرخم تو نہیں ہے
اِک ابر کی ٹھنڈک میں اسے بھول ہی جائیں
یادوں کی تپش، اتنی بھی مدھم تو نہیں ہے
اس عہد میں وابستگئ موسمِ گُل بھی
اب حلقۂ زنجیر سے کچھ کم تو نہیں ہے
ہر ایک گُل اندام کی چوکھٹ پہ ٹھہر جائے
دل ہے، کوئی آوارۂ عالم تو نہیں ہے
پھر دشتِ تمنّا میں ہے لرزاں، کوئی آواز
خالدؔ! یہ صدائے جرسِ غم تو نہیں ہے
یہ شب ہے، ترا کاکُلِ پُرخم تو نہیں ہے
اِک ابر کی ٹھنڈک میں اسے بھول ہی جائیں
یادوں کی تپش، اتنی بھی مدھم تو نہیں ہے
اس عہد میں وابستگئ موسمِ گُل بھی
اب حلقۂ زنجیر سے کچھ کم تو نہیں ہے
ہر ایک گُل اندام کی چوکھٹ پہ ٹھہر جائے
دل ہے، کوئی آوارۂ عالم تو نہیں ہے
پھر دشتِ تمنّا میں ہے لرزاں، کوئی آواز
خالدؔ! یہ صدائے جرسِ غم تو نہیں ہے
خالد علیم
کیا بات ھے زیرک صاحب
ReplyDeleteبہت شکریہ محترم
Delete