Monday 10 December 2012

خوابیدگی درد کی محرم تو نہیں ہے

خوابیدگی، درد کی محرم تو نہیں ہے
یہ شب ہے، ترا کاکُلِ پُرخم تو نہیں ہے
اِک ابر کی ٹھنڈک میں اسے بھول ہی جائیں
یادوں کی تپش، اتنی بھی مدھم تو نہیں ہے
اس عہد میں وابستگئ موسمِ گُل بھی
اب حلقۂ زنجیر سے کچھ کم تو نہیں ہے
ہر ایک گُل اندام کی چوکھٹ پہ ٹھہر جائے
دل ہے، کوئی آوارۂ عالم تو نہیں ہے
پھر دشتِ تمنّا میں ہے لرزاں، کوئی آواز
خالدؔ! یہ صدائے جرسِ غم تو نہیں ہے

خالد علیم

2 comments: