Friday, 14 December 2012

ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی

ہے ایک ہی جلوہ جو اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
آئینہ بھی حیران ہے، اور آئینہ نگر بھی
ہو نُور پہ کچھ اور ہی اِک نُور کا عالم
اس رخ پہ جو چھا جائے مرا کیفِ نظر بھی
تھا حاصلِ نظارہ، فقط ایک تحیّر
جلوے کو کہے کون کہ اب گُم ہے نظر بھی
اب تو یہ تمنّا ہے، کسی کو بھی نہ دیکھوں
صورت جو دکھا دی ہے تو لے جاؤ نظر بھی

اصغر گونڈوی

No comments:

Post a Comment