Wednesday, 5 December 2012

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
اِک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا
اِک عالمِ خوبی ہے میسّر، مگر اے کاش
اُس گُل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا
اُس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر
اِک حلقۂ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا
مہتاب میں اِک چاند سی صورت نظر آتی
نِسبت کا شرف سلسلۂ میر میں ہوتا
مرتا بھی جو اس پر تو اُسے مار کے رکھتا
غالب کا چلن عشق کی تقصیر میں ہوتا
اِک قامتِ زیبا کا یہ دعوٰی ہے، کہ وہ ہے
ہوتا تو میرے حرفِ گِرہ گیِر میں ہوتا

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment