اس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی، جو یکجا گزری
آ، گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دُشمن
اک مری بات نہیں، تجھ پہ بھی کیا کیا گزری
میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست! یہ ساعت تو ہمیشہ گزری
میری تنہا سفری، میرا مقدر تھی فرازؔ
ورنہ، اس شہرِ تمنّا سے تو دُنیا گزری
احمد فراز
No comments:
Post a Comment