Thursday, 13 December 2012

آج دل بے قرار ہے کیا ہے

آج دل بے قرار ہے، کیا ہے
درد ہے، انتظار ہے، کیا ہے
جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے، کیا ہے
یہ جو کھٹکے ہے دل میں کانٹا سا
مژہ ہے، نوکِ خار ہے، کیا ہے
چشم بددُور، تیری آنکھوں میں
نشہ ہے، یا خمار ہے، کیا ہے
میرے ہی نام سے خدا جانے
ننگ ہے، اُس کو عار ہے، کیا ہے
جس نے مارا ہے دام دل پہ مرے
خط ہے، یا زلفِ یار ہے، کیا ہے
کیوں گریبان تیرا آج حسنؔ
اس طرح تار تار ہے، کیا ہے

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment