Sunday, 9 December 2012

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے، آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اسکی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے
بے ثمر ہی سہی ہے شاخِ مراد
برف پگھلی تو آگ برسی ہے
دل میں اب کیا رہا ہے تیرے بعد
ایک سنسان رہ گزر سی ہے
صبح تک ہم نہ سو سکے ناصرؔ
رات بھر کتنی اوس برسی ہے

ناصر کاظمی



No comments:

Post a Comment