کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے، آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اسکی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے
بے ثمر ہی سہی ہے شاخِ مراد
برف پگھلی تو آگ برسی ہے
دل میں اب کیا رہا ہے تیرے بعد
ایک سنسان رہ گزر سی ہے
صبح تک ہم نہ سو سکے ناصرؔ
رات بھر کتنی اوس برسی ہے
ناصر کاظمی
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے، آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اسکی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے
بے ثمر ہی سہی ہے شاخِ مراد
برف پگھلی تو آگ برسی ہے
دل میں اب کیا رہا ہے تیرے بعد
ایک سنسان رہ گزر سی ہے
صبح تک ہم نہ سو سکے ناصرؔ
رات بھر کتنی اوس برسی ہے
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment